
س ن مخمور
ابا جی ۔۔۔۔۔ ہر خاص و عام کے لئے وہ اسی نام سے جانے پہچانے جاتے تھے۔ دھوپ میں سائبان کی مانند، زندگی کے تلخ حقائق اور بے حس رویوں میں ہر جان کے لئے شفقت و محبت کا مرکز، عشق ِ الہی کی راہ پرخار پر تشنہ روح مسافروں کے واسطے آگہی کا سمندر، وہ میرے کون تھے؟ وہ میرے کون ہیں؟ یہ سوال اب تک اپنے جواب کا منتظر ہے مگر اب اس جستجو کو ان سے فراق کا غم گن کی طرح چاٹ رہا ہے،آپ کے جانے سے احساس یقین بن چکا ہے کہ میری ذات کا کچھ حصہ ناتمام رہ گیا ہے، آگہی کا سفر تھم چکا ہے، ایک بے ربطگی ہے، والد صاحب کو وہ “پروفیسر صاحب ” یا کبھی ” بڑے سید صاحب ” کہہ کر یاد کرتے تھے اور بہت محبت سے ان کا حال دریافت کرتے تھے ۔ والد صاحب بھی ان کو ابا جی ہی کہہ کر یاد کرتے تھے، وہ ہمارے گھرانے کے لئے ہمارے اپنوں سے ممتاز حیثیت رکھتے تھے ان کا اس دل گرفتہ کو ” سید صاحب ” کہنا آج بھی سماعت میں محفوظ ہے، ہر جان کی طرح میں بھی آپ کو ابا جی ہی کہتا تھا، کہتا ہوں مگر یہ مجھ کو یقین ہے وہ اس نام، اس رشتے سے بڑھ کر تھے میرے لئے مگر کیا ؟؟؟؟ یہ سوال اب اپنے جواب کی تلاش سے زیادہ ان کی یاد ، اور فراق کے غم میں نڈھال ہو چکا ہے۔
س ن مخمور